فتنوں کے دور میں ایمان کی حفاظت!

 

از: مولانا حذیفہ وستانوی

 

اللہ رب العز ت نے ہمیں انسا ن کی صور ت میں وجو د بخشا ، یہ اللہ کا انتہا ئی عظیم انعام ہے ، اللہ کی مخلو ق میں انس و جن ہی مستحقِ جزا ء و سزا ء ہیں؛ اس لیے کہ اللہ نے انسا ن کو قو تِ ارادہ عطا کیا، پھرعقل دی جس سے وہ خبیث وطیب میں تمیز کر سکے ، اپنے نفع و نقصا ن کو سمجھ سکے ، اور اسے ہدایت وضلا لت کے درمیا ن امتحا ن کے لیے چھوڑ دیا ، اس کی ہدایت کے لیے انبیا ء علیہم السلا م کو مبعو ث کیا ،جنہوں نے وحی کی روشنی میں ہدایت کی را ہیں بتائیں ، انبیا ء کے سلسلے کو احمد ِمصطفی محمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر انتہائی جامع وحی ناز ل کی ، جس میں انسا ن کو اللہ سے مر بو ط رکھنے کی تعلیم ، اللہ کی مر ضیا ت کے مطابق قو ل و فعل کے لیے احکامِ فقہیہ کی تعلیم ، اخلاق کی درستگی کی لیے تزکیہٴ نفس کی تعلیم ، حقو ق العبا دکے لیے معاشر ت کی تعلیم ، اور کسب ِحلا ل کے لیے معیشت کی تعلیم بھی مکمل جامعیت کے ساتھ دی اسی طرح قیامت تک آ نے والے فتنو ں سے مطلع کیا گیا ، غرضیکہ ان تمام امور کی تعلیم دی گئی جو انسا ن کی دنیوی ضرو رت کو بہ حسن و خو بی پورا کر نے کے ساتھ ساتھ آ خر ت کی کا میا بی کی مکمل ضا من ہو ، جب تک امت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیما ت پر عمل کرتی رہی دنیوی کا میا بیا ں قدم بو سی کرتی رہیں؛ مگر جہاں امت نے تعلیمات ِنبویہ سے انحر ا ف کیا اور اپنی خواہشا ت کے مطا بق قرآ ن وحدیث کی باطل تاویلا ت کر نی شروع کردی تو اللہ نے اس کو ہرطرح کی دنیو ی پریشا نی میں مبتلا کر دیا ۔ قر آن کریم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا  ﴿اَنْتُمُ الْأعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُوٴْمِنِیْن﴾”تم ہی سر بلند رہو گے اگر صفتِ ایمان کے ساتھ متصف رہے ۔“

          ایک سنگین مسئلہ : مسلما نو ں کو بڑی سنجیدگی کے سا تھ اس مسئلہ پر غو ر وفکر کرنے کی ضرو رت ہے کہ مقصد ِحیات کیا ہے ؟ اور آج کا انسا ن مقصد ِحیا ت کو پس پشت ڈال کر کہاں جا رہا ہے ؟

          لو گوں کا عجیب حا ل ہے ، زندگی ایسی گز ار رہے ہیں، جیسے مر نا ہی نہیں ہے۔ اور زندگی کا حساب دینا ہی نہیں ہے ؛ حالا نکہ نہ تو مو ت سے کوئی بچ سکتا ہے اور نہ حساب و کتا ب سے ۔ مغر ب نے ما دّیت یعنی دنیا پر ستی کو لو گو ں کے ذہن ودما غ پر ایسا سوار کردیاہے کہ دینی علم اور فکر آخرت میں رسو خ کے بغیر دنیاداری سے بچنا انتہائی دشو ار ہے ۔ اہل مغر ب نے دنیو ی تعلیم میں لو گوں کو ایسا مشغو ل کیا کہ دینی تعلیم کے لیے فرصت ہی نہیں بچی اور ٹیلی ویژن پر اخبار بینی، اسپور ٹ ، سیر یل، فلم ، ناچ ، گا نے اور مختلف پروگراموں میں ایسا مشغو ل کیا کہ دین کے لیے وقت ہی نہیں بچا ، نہ دین سیکھنے کا وقت ہے اور نہ اس پر عمل کر نے کی فرصت ۔

دنیوی تعلیمی نصاب میں مادی افکار کی زہرافشانی:

          دنیوی تعلیمی نصاب میں ما دّی افکار کا زہر اور اس کے ایما ن سو ز اثرا ت ،افکار ، اعتقادات اور تہذیب و ثقا فت کو بھی شامل کیا اور خوا ہ مخواہ یہ ثابت کیا کہ ”مذہب “ انسان کانجی مسئلہ ہے، اجتما عی زندگی میں اس کی کوئی ضر ور ت نہیں؛بلکہ انسا ن کو نجی زندگی میں مذہب سے دور رکھنے کے لیے تعلیم دی کہ اسے اپنی زندگی گزا ر نے میں کسی خدائی پا بند ی کا لحا ظ کر نے کی ضرو ر ت نہیں۔ جو کچھ کر نا ہو سب دنیا ہی کے لیے کر و ، اپنی ہر چیز کو دنیا کی کا میا بی کے لیے قر با ن کردو ، اپنا مال، اپنی جا ن، اپنا وقت ، اپنی اولا د سب کو دنیا داری میں مشغو ل کر دو ۔ اللّٰھُمَّ احْفَظْنَا مِنْہ

          یہو د ونصا ریٰ نے یہ بھی ثابت کر نے کی کو شش کی کہ حقا ئق کا جو بھی ادراک ہو تا ہے وہ محض مشاہد ہ اور تجر بہ سے حا صل ہو تا ہے ۔اس کے لیے کسی ”نبی“ اور ”رسول ‘‘ کی ضرو ر ت نہیں، اور اسی خطرناک حر بہ کے ذریعہ عور ت کو آ زا دی دلا ئی ، جو آ زادی نہیں بر با دی کا با عث ہو ئی ۔ آج دنیا کے حالا ت اس پر گواہ ہیں اور جب عو ر ت گھر سے بے پر دہ ہو کر با ہر آ ئی تو زناکاری کے لیے لائسنس جاری ہو نے لگے ، مر د اور عورت کی رضا مندی کو زنا کی فہرست سے خارج کر دیا، جس کے سبب یور پ میں خا ندا نی نظا م جو تبا ہ ہو ا، وہ دنیا والو ں کے سامنے ہے ۔ گویا ”مَنْ حَفَرَ بِئْراً لأخِیْہِ وَقَعَ فِیْہ“ کا یو رپ صحیح مصدا ق ٹھہر ا ،جو اپنے بھا ئی کے لیے کو ا ں کھو دتا ہے خودہی اس میں گر تا ہے ۔

          معاشر ے کے معصو م بچو ں کی نصابی کتا بو ں میں جنسیت کے مواد کو شا مل کیا اور العیاذ باللہ انسان کو یہ با و ر کرانے کی کوشش کی کہ یہ دنیا میں محض جنسی ضرو ر ت پور ی کرنے کے لیے ہے، اس طرح انسا ن کو اشرف المخلو قات کے درجہ سے اتا ر کر دیگر حیو ا نو ں کی صف میں لاکھڑ ا کردیا۔

          یہ دشمنا نِ ایما ن نہیں؛ بلکہ دشمنا نِ انسا نیت ہیں۔ محض اپنے مفا د کی خا طرمسلما نو ں ہی کو نہیں؛ بلکہ پورے انسا نی معاشر ے کو عا لمگیر پیما نے پر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔

           اپنے ایما ن کی حفا ظت یہ ہمار ا اولین تر جیح ہو نی چا ہیے؛ کیو نکہ اگر ایما ن سے ہا تھ دھو بیٹھے، تو نا قابلِ تلافی نقصان اٹھا نا پڑے گا ،جس پر مو ت کے بعد کف ِافسو س ملنے سے بھی کوئی فا ئدہ نہ ہو گا اور اس کے بعد عذابِ جہنم سے خلا صی کی بھی کوئی صور ت نہیں ہو گی، جیسا کہ قر آ ن کریم نے جابجا بیان کیا ہے ۔لہٰذ ا اس مسئلہ کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے مند رجہ ذیل ہدا یا ت پر عمل کیا جائے۔

          (۱) علما ء ربا نین کی تحر یرو ں، تقریروں اور ان کی مجالس سے فتنہ کو جا نا جا ئے اور اس کے انجام پر نظر رکھی جا ئے اور اس سے بچنے کی مکمل تدا بیر اختیا ر کی جائے ۔مثلا ً ”قیا مت کی نشا نیاں“ (عمرا ن اشرف عثما نی ) ”عالمی یہودس تنظیمیں “ مفتی ابولبابہ صاحب دامت برکاتہم۔

          (۲) دعاء کا اہتمام کیا جائے اور رو رو کر اللہ سے مانگا جائے۔

          (۳) اسلامی فر ائض کا خا ص اہتمام کیا جائے مثلا ً نما ز ، رو ز ہ، حج ، زکوٰة اور ہر حالت میں ان فرائض کو ادا کرنے کی انتھک کوشش کی جا ئے ۔

          (۴) مقصد ِحیا ت” اللہ کی عبا دت اورا س کی رضا مندی کا حصو ل“ ہر حالت میں پیش نظر رکھا جا ئے ۔ اور اخلا ص کے ساتھ اس پر عمل کر نے کی کوشش کی جا ئے جس سے اللہ راضی ہو تے ہیں، اورہراس قو ل و عمل سے بچاجائے ،جس سے اللہ نا را ض ہو تے ہوں۔

          (۵) آخرت کی فکر اپنے اندر پیدا کی جائے اور اس کے لیے صالحین کی صحبت اختیار کی جائے اورایسی کتا بیں پڑھی جائیں، اور گھرمیں اس کی تعلیم کی جائے جو فکر آ خر ت پید ا کر تی ہوں ۔

          (۶) اسلا م کے بار ے میں ادھو ری معلو ما ت رکھنے والو ں سے بچا جائے۔

          (۷) دینی تعلیم حا صل کر نے کا نظا م بنا یا جا ئے، ہمار ی تمام پریشا نیو ں کا حل دینی تعلیم کے سیکھنے اور اس پر عمل کر نے میں ہے ، ہمارے بچے ، بڑے، عو رتیں ، جوا ن؛ سب کو خو ب اچھی طر ح اسلا می عقا ئد سے واقف ہو نا چا ہیے ، نما ز ، رو زہ ، زکوٰة اور حج کے احکام ہر ایک کے لیے ضروری ہیں، اور تا جر کے لیے تجا رت کے احکا م، جس کا جو پیشہ ہو اس پیشہ کے احکا م سے واقف ہو نا فر ض ہے ۔ یا تو صحیح العقیدہ علما ء سے براہِ راست سیکھاجائے یا گھر میں ا ن کی کتا بو ں کی تعلیم کی جائے، مثلاً اسلا م کی بنیا دی تعلیما ت (حضرت مو لا نا اشر ف علی تھا نوی)، تحفة المسلمین (مو لا نا عاشق الٰہی میرٹھی )، حیاةالمسلمین ، بہشتی زیو ر (حضرت مو لا نا اشر ف علی تھانوی)، دینی تعلیم کا رسالہ ، تعلیمات ِاسلام(مفتی کفا یة اللہ ) ، اسلا می عقیدے (مولانا عبد الحق ) ، وغیرہ مگر علما ء سے براہ ِراست سیکھنا زیا دہ بہتر ہے ۔

          (۸) صالحین کی صحبت اختیار کی جائے اور ان کے سا منے اپنے باطنی احو ال رکھ کر علا ج کروا یا جائے اور تز کیہٴ نفس کی فکر کی جائے ، اس سے متعلق کتا بیں پڑھی جا ئیں ۔

          (۹) اپنے بچو ں کی دینی تر بیت کی جائے اور فیشن پر ستی سے دور رکھا جائے ، گھر کا ما حو ل دینی بنا یا جائے ادعیہٴ ماثور ہ کا خود بھی عا دی بنیں اور گھر والو ں کو بھی بنا ئیں ، صبح و شا م کی مسنو ن دعائیں او راذکار کا خاص اہتمام کیا جا ئے ۔

          (۱۰) بُر ے لو گو ں اوربری تہذیب سے مکمل پر ہیز کیا جا ئے ۔خاص طور پر ٹیلیویژن ، ویڈیو، میوزک ، ناچ گا نا سے بچا جا ئے ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے ٹی وی صر ف خبر و ں کے لیے رکھا ہے مگر انھیں یہ سو چنا چاہیے کہ مر نے کے بعد دنیا بھر کی خبر و ں کا سو ال نہیں ہو گا ؛بلکہ خو د آپ کی خبرلی جا ئے گی او ر پھر جزاء وسز ا کا فیصلہ ہو گا ۔

          (۱۱) قر آ ن کو پڑھا جائے اس کو سمجھا جا ئے اور اس پر عمل کیا جائے ،جیسا کہ صحابہ نے کیا؛ مگر افسو س کے امت نے قر آ ن کو پس پشت ڈا لدیا نہ اس کی تلا و ت ہوتی ہے نہ اس کو سمجھنے کی سعی اور نہ اس پر عمل ۔ لہٰذا ائمہ مساجد اور علما ء سب سے پہلے اس کو صحت اور تجو ید کے سا تھ پڑھنا سیکھیں ، ائمہ اور علماء بھی فکرمندی سے امت کو قر آ ن کی تعلیم دیں اور جو لو گ قرآ ن فہمی کے اصو ل وقو ا عد سے مکمل واقف ہوں ان سے قرآ ن کو سمجھا جا ئے۔

          عو ا م کے لیے عا م فہم تفا سیر یہ ہیں :

          (۱)معارف القرآ ن (حضرت مفتی شفیع صاحب )

          (۲)ہدایتُ القرآن (حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری زیدمجدہ)

          (۳) آ سا ن تر جمہ قر آ ن (حضرت مو لا نا مفتی تقی عثما نی زیدمجدہ)

          (۴) ترجمہ شیخ الہند مع فوائد عثمانی۔

          (۱۲)وقت کی قدر کریں اور ہر وقت ایسا عمل کریں جس سے آخر ت کا فا ئدہ ہو۔

           آج انسان کا سب سے بڑ ا مسئلہ وقت کا ضیا ع ہے ، لو گو ں کو بے ہو دہ با تو ں میں مبتلا کرکے دشمنا نِ انسانیت نے بڑ ا ظلم ڈھا یا ہے ، موبائل ، ٹی وی ، انٹر نیٹ ، تفریح گا ہیں وغیرہ کو اتنا عا م کیا جا رہا ہے کہ اللہ کی پنا ہ انسان آ خر ت کی تیا ری سے بے خبر ہو کر ان میں مصر و ف ہے۔

           (۱۳) سیرت نبوی کا خاص طور پر مطالعہ کیاجائے آپ … کی سیرت اور زندگی قیا مت تک آنے والو ں کے لیے اسوہ اور نمو نہ ہے۔ اس مو ضو ع پر سب سے عمدہ کتا ب عارف با للہ حضرت مولانا عبد الحئی عارفی رحمة اللہ علیہ کی ”اسوہ ٴرسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم“ہے،(اس کا انگلش میں ترجمہThe Ways Of Holy Prophet Mohammad ہو چکا ہے ) آپ نے اسے سیرتِ نبو ی پر عمل کر نے ہی کے لیے لکھا ہے۔ اس کے علا وہ سیر تِ خا تم الا نبیا ء اور تفصیلی مطالعہ کے لیے سیر ت المصطفیٰ، مولانا ادریس کا ندھلو ی اور سیرت النبی مولانا سید سلیمان ندوی۔

٭٭٭

------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1 ‏، جلد: 97 ‏، ربیع الاول 1434 ہجری مطابق جنوری 2013ء